جو اس بے رحم پر اپنا دل خانہ خراب آیا
جو اس بے رحم پر اپنا دل خانہ خراب آیا
گئے صبر و تحمل ہوش و طاقت اضطراب آیا
ہوا بدلی گھٹا چھائی وہ بارش کا سحاب آیا
مگر اب تک نہ اے پیر مغاں دور شراب آیا
سر محشر وہ یار شعلہ رو جب بے نقاب آیا
تو اہل حشر چیخ اٹھے زمیں پر آفتاب آیا
سر محفل عدو سے وصل کا اقرار کرنا تھا
تمہیں کچھ بھی حیا آئی تمہیں کچھ بھی حجاب آیا
شب فرقت کسی نے بھی نہ مجھ ناکام کو پوچھا
نہ تم آئے نہ موت آئی نہ صبر آیا نہ خواب آیا
جفا جو سنگ دل بے رحم ہے وعدہ شکن ہے وہ
تو آیا بھی تو کس پر اے دل خانہ خراب آیا
غضب ہے یار نے سر کاٹ کر بھیجا ہے قاصد کا
جواب آیا ہمارے نامہ کا تو یہ جواب آیا
ہوئی توبہ بھی ٹکڑے ٹکڑے مثل ساغر و مینا
ہمارے سامنے اے شیخ جب دور شراب آیا
جو چھو لی زلف پر خم میں نے برہم ہو گئے مجھ سے
ہنسی کی بات تھی صاحب مگر تم کو عتاب آیا
کھلا سب حال ہم پر اس جہاں کی بے ثباتی کا
مٹا سطح سمندر پر ابھر کر جو حباب آیا
ابھی تک ہے وہی غفلت سفیدی بالوں پر آئی
اٹھو بہر خدا صابرؔ کہ سر پر آفتاب آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.