جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے
جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے
تو گویا پھول سے خوشبو کشید کر لی ہے
جدائیوں میں بھی ڈھونڈی ہیں قربتیں میں نے
ضرر رساں تھی جو شے وہ مفید کر لی ہے
نہیں کھلے تھے جو منظر مری بصارت پر
تصورات میں ان کی بھی دید کر لی ہے
ستارے ٹانک دیے ہیں فلک کی چادر پر
اور اپنی چادر شب بے نوید کر لی ہے
میں چاہتا تو اسے کچھ قریب لے آتا
مسرتوں کی جو ساعت بعید کر لی ہے
اسے تو دکھ ہی نہیں کچھ مری جدائی کا
سزا خود اپنے لیے ہی شدید کر لی ہے
اسے بھلانے کی کوشش میں یاد کر کر کے
خود اپنی زیست ہی مشکل مزید کر لی ہے
حسین ابن علی کی طرف ہی لوٹیں گے
جنہوں نے بیعت فکر یزید کر لی ہے
عطائے میرؔ ہے مجھ پر کہ میں نے بھی روشن
غزل کی شمع بطرز جدید کر لی ہے
جچا ہے اب کہیں جا کر نسیمؔ جامۂ زیست
کہیں کہیں سے جو قطع و برید کر لی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.