جدا ہوتے نہیں ایسے بھی کچھ آزار ہوتے ہیں
جدا ہوتے نہیں ایسے بھی کچھ آزار ہوتے ہیں
سفر کے آخری رستے بڑے دشوار ہوتے ہیں
جو چہرے پر لکھی تحریر پڑھ لیتے ہیں پل بھر میں
کچھ ایسے لوگ ہیں مثل ستارہ بار ہوتے ہیں
یہاں جو بھی ہے سب باطل نظر کا ایک دھوکا ہے
تو پھر کس بات پر ہم یوں ہی دعویدار ہوتے ہیں
چٹانوں پر ہرے پتے کہیں نغمہ سرا پتھر
نوید زندگی کے یہ ہی تو آثار ہوتے ہیں
ہماری بھیگتی آنکھیں تمہارے مسکراتے لب
محبت کے یہی لمحے بڑے سرشار ہوتے ہیں
ہماری مسکراہٹ تو ہمارے غم چھپاتی ہے
ہمارے رازداں گھر کے در و دیوار ہوتے ہیں
سفر جتنا بھی طے پایا یہ سارا کھیل لگتا ہے
یوں لگتا ہے سبھی کار ہنر بے کار ہوتے ہیں
جو تم نے کر دیا سو کر دیا دریا میں جانے دو
پھر اس کے بعد تو شکوے گلے بے کار ہوتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.