جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے
جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے
ملا وہ اختیار آخر کہ ہم تنہا ہوئے خود سے
تہ آب دل و جاں موتیوں کی طرح رہتے ہیں
جو منظر اس جہان خاک میں پیدا ہوئے خود سے
چھپا لیتے تری صورت ہم اپنی آنکھ میں دل میں
لب گویا کے ہاتھوں کس لئے رسوا ہوئے خود سے
اڑی وہ خاک دل صورت نظر آتی نہیں اپنی
پریشاں ہو گئے اتنے کہ برگشتہ ہوئے خود سے
وہ جھیلیں سختیاں جاں پر کہ دل پتھر ہوا اپنا
بچایا اس قدر خود کو کہ بے پروا ہوئے خود سے
ملا وہ نور آنکھوں کو کہ بے سایہ ہوئے ہم بھی
حجاب لا مکاں پایا جو بے پروا ہوئے خود سے
پڑے تھے بے خبر کب سے خموشی کے سمندر میں
ہوا ایسی چلی ہم زمزمہ پیرا ہوئے خود سے
اب اس ذوق حضوری کے مزے کس سے بیاں کیجیے
ہم اپنی خلوتوں میں کس طرح گویا ہوئے خود سے
ندیمؔ اپنے سفینے کو بہا کر لے گئے ہر سو
جو طوفاں قلزم جاں میں مرے برپا ہوئے خود سے
- کتاب : Shola-e-Khushboo (Pg. 173)
- Author : Salahuddin Nadeem
- مطبع : Raheel Salahuddin (1984)
- اشاعت : 1984
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.