جدائی ہی ضرورت ہو گئی ہے
جدائی ہی ضرورت ہو گئی ہے
سنو تلخی کے اک دو گھونٹ پی کر
مجھے جینے سے رغبت ہو گئی ہے
بہت رنگین تھا تیرا فسانہ
اب اس میں اور جدت ہو گئی ہے
ہمیں معتوب کر کے رکھ دیا ہے
بھلا عورت علامت ہو گئی ہے
بھنور میں جب سے پاؤں رکھ دئے ہیں
ہمیں گردش کی عادت ہو گئی ہے
سمندر تو نہیں تھی زندگانی
جسے کشتی کی حاجت ہو گئی ہے
مرا دل بانجھ ہوتا جا رہا ہے
تمہاری یاد رخصت ہو گئی ہے
ہوا نے زخم سی کر رکھ دئے جب
دئے کو کیوں شکایت ہو گئی ہے
چلو دنیا کو اب آزاد کر دیں
مکمل اس کی عدت ہو گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.