جنوں کی قیمت چکا رہے ہیں
جنوں کی قیمت چکا رہے ہیں
خیال کے پر کٹا رہے ہیں
وجود کے صد ہزار پرزے
فضائے کن میں اڑا رہے ہیں
مرا ہی دل بے یقیں ہے ورنہ
سبھی چڑھاوے چڑھا رہے ہیں
زمیں کو دوزخ بنا کے ملا
خیالی جنت سجا رہے ہیں
گھما کے ڈوری میں چند دانے
خدا پہ احساں جتا رہے ہیں
بلی چڑھا کے یہ خوش عقیدہ
خیالی پیکر منا رہے ہیں
وہ آئنے سے خفا ہیں بیٹھے
جو عیب میرے گنا رہے ہیں
تھپک کے دیرینہ وسوسوں کو
نئے توہم ستا رہے ہیں
اب ان سماجوں کو راکھ کر دو
جو آرزو کی چتا رہے ہیں
بہشت سے نکلے خاک زادے
زمیں کی رونق بڑھا رہے ہیں
اک آن کی لاج میں ہم ایسے
نبھا رہے تھے نبھا رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.