جنوں میں مشق تصور بڑھا رہا ہوں میں
جنوں میں مشق تصور بڑھا رہا ہوں میں
وہ پاس آئے تو اب دور جا رہا ہوں میں
فضائے گلشن ہستی پہ چھا رہا ہوں میں
ترے کرم کا کرشمہ دکھا رہا ہوں میں
وہ چار تنکے جنہیں برق بھی جلا نہ سکے
انہیں سے اپنا نشیمن بنا رہا ہوں میں
ہے آدمی کا مقدر خود اس کے ہاتھوں میں
کچھ اس فریب میں بھی مبتلا رہا ہوں میں
ابھر رہے ہیں فسانے حقیقتیں بن کر
حقیقتوں کو فسانے بنا رہا ہوں میں
کچھ اور قصۂ دار و رسن سنا واعظ
کہ اس خیال سے تسکین پا رہا ہوں میں
وہ اک نظر کہ جسے جان مدعا کہیے
اسی نظر کو تری ڈھونڈھتا رہا ہوں میں
نہیں ہوں مصلحت اندیش حق بیانی میں
یہی ہے جرم سزا جس کی پا رہا ہوں میں
سمجھ چکا ہوں حقیقت حیات فانی کی
وفور غم میں بھی اب مسکرا رہا ہوں میں
کمال فیض محبت نہیں تو پھر کیا ہے
کہ ذرے ذرے میں اب ان کو پا رہا ہوں میں
انہیں بایں خرد و ہوش پا سکا نہ کبھی
متاع ہوش و خرد کھو کے پا رہا ہوں میں
رہ مجاز و حقیقت کے موڑ پر ذوقیؔ
کھڑا ہوا ہوں مگر لڑکھڑا رہا ہوں میں
- کتاب : Kulliyat-e-Dr. Zauqi (Pg. 164)
- Author : Dr. Zauqi
- مطبع : Suhail Anwar (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.