جرأت ہو تو پوچھے یہ کوئی پیر مغاں سے
جرأت ہو تو پوچھے یہ کوئی پیر مغاں سے
کھنچتی ہے کہاں آتی ہے بوتل میں کہاں سے
پچھتائیے گا ہم کو برا کہہ کے زباں سے
ٹوٹے گا نہ وہ تیر جو نکلے گا کہاں سے
ہم بات بھی کرتے نہیں اس آفت جاں سے
جو میری کہانی سنے دشمن کی زباں سے
سرگوشیاں کیسی ہیں ذرا بڑھ کے تو دیکھو
قاصد تو نہیں آیا ہے خط لے کے وہاں سے
آزادی نے بازو بھی سلامت نہیں رکھے
اے طاقت پرواز تجھے لائیں کہاں سے
وہ دیکھیے پھر جھوٹی قسم آپ نے کھائی
پھر کہہ گئے وہ جو نہیں کہنا تھا زباں سے
پہونچے بہ ادب بارگہہ ناز میں تیری
نالے مرے ٹکرا کے مؤذن کی اذاں سے
دشمن کی کہانی تو سدا سنتے رہے آپ
میری بھی کبھی سنتے مگر میری زباں سے
غیرت کا تقاضہ ہے کہ اس بزم میں چلئے
اور ضعف یہ کہتا ہے کہ اٹھے نہ یہاں سے
ہنستے جسے دیکھا اسے روتے ہوئے دیکھیں
اللہ دل ایسا کوئی اب لائیں کہاں سے
گھبرا کے ادھر اور ادھر دیکھ رہے ہیں
پہنچا گئے احباب کہاں ہم کو کہاں سے
پھولوں میں ہنسی میں تری پہچان رہا ہوں
تجھ سے نہیں سیکھا ہے تو لائے ہیں کہاں سے
موسم کا تقاضا ہے کہ پی لیجیے بسملؔ
اور وقت یہ کہتا ہے پیو گے تو کہاں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.