جوئے تازہ کسی کہسار کہن سے آئے
یہ ہنر یوں نہیں آتا ہے جتن سے آئے
لوگ نازک تھے اور احساس کے ویرانے تک
وہ گزرتے ہوئے آنکھوں کی جلن سے آئے
شہر گل کاسۂ درویش بنا بیٹھا ہے
کوئی شعلہ کسی جلتے ہوئے بن سے آئے
درد کی موج سبک سیر میں بہہ جاؤں گا
چاہے وہ جان سے چاہے وہ بدن سے آئے
صبح کے ساتھ عجب لذت دریوزہ گری
رات بھر سوچتے رہنے کی تھکن سے آئے
ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.