کام آئیں تعلق کی بیساکھیاں چند ماتھوں پہ مہتاب ٹانکے گئے
کام آئیں تعلق کی بیساکھیاں چند ماتھوں پہ مہتاب ٹانکے گئے
آخری صف میں بیٹھے ہوؤں کی کہو کب اٹھایا گیا اور ہانکے گئے
شمع دان غزل سے بھڑکتی ہوئی بلی ماراں میں کوئی حویلی نہیں
گومتی کے کنارے اندھیرا ہوا مرثیہ سن کے مجلس سے بانکے گئے
چق اٹھائی تو دنیا کے بازار میں خواہشوں کی نجاست کا انبار تھا
ہم نے بجتا ہوا ہر کٹورا سنا اور کھڑکی سے چپ چاپ جھانکے گئے
زرد سکوں کا صندوق کھلتا رہا باٹ چڑھتے رہے مال تلتا رہا
چار جانب سے بولی بڑھائی گئی شعر بیچے گئے لفظ آنکے گئے
شاہ شانوں پہ رکھے ہوئے تخت پر دیوتا کی سماجت میں مصروف تھا
بد دعائیں اگلتے ہوئے بد زباں آہ بھرتے رہے دھول پھانکے گئے
آخری بستیوں کی کہانی سنو سرخ اینٹوں کی بھٹی بجھائی گئی
پھول ریتی کے نیچے دبائے گئے چاہ مٹی کے ٹیلوں سے ڈھانکے گئے
جاں کنی کی اذیت میں غم خوار کیا ایک مرتے ہوئے کو عزادار کیا
کب لحد میں کہیں شمع رکھی گئی کیا کفن میں کبھی پھول ٹانکے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.