کام کچھ تو لینا تھا اپنے دیدۂ تر سے
کام کچھ تو لینا تھا اپنے دیدۂ تر سے
کاٹ دیں کئی راتیں آنسوؤں کے خنجر سے
نیند ہے تھکن سی ہے سلوٹیں ہیں یادیں ہیں
کتنے لوگ اٹھیں گے صبح میرے بستر سے
جان بوجھ کر ہم نے بادبان کھولے ہیں
کس کو اب پلٹنا ہے بے کراں سمندر سے
بھیگنا مضر تو تھا پھر بھی کیسی لذت تھی
جب گھٹائیں اٹھیں تھیں میں قریب تھا گھر سے
آج تو ہوا بھی ہے تیز برف باری بھی
یوں بھی نیند کیا آتی اک شکستہ چادر سے
جب بھی پائیں گے موقع پھول توڑ ہی لیں گے
بچے رک نہیں سکتے باغبان کے ڈر سے
اے نشاط کے زینو تم کو یاد تو ہوگا
اک سلام کہہ دینا اس مدینہ اختر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.