کام یہ بھی نیا کرے کوئی
کام یہ بھی نیا کرے کوئی
خود کو خود سے جدا کرے کوئی
جسم کی قید میں ہوں برسوں سے
مجھ کو مجھ سے رہا کرے کوئی
دیکھیے حوصلہ چراغوں کا
ان کی ضد ہے ہوا کرے کوئی
میرے کاندھے پہ رکھ کے سر اپنا
میری غزلیں سنا کرے کوئی
سب کا ہوگا بھلا بھلائی سے
کیوں کسی کا برا کرے کوئی
آگ ہی آگ ہے جسے دیکھو
پانی پانی ہوا کرے کوئی
آ کے محفل میں چوم لے مجھ کو
کاش ایسی خطا کرے کوئی
چاہے پتھر ہوں سارے اک جیسے
کیسے سب کو خدا کرے کوئی
زخم تو دے رہے ہو دھرتی کو
کاش اس کی دوا کرے کوئی
چاند تاروں کو کھوجنے والو
آدمی کا پتہ کرے کوئی
ساری دنیا میں دہشتیں بھر کے
یا خدا یا خدا کرے کوئی
جرم لگتی ہے سب کو خاموشی
کچھ نہ بولے تو کیا کرے کوئی
میرے خط پھاڑ کے جلا ڈالو
مجھ سے یہ التجا کرے کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.