کار ہستی خار و گل کے درمیاں بنتا گیا
کار ہستی خار و گل کے درمیاں بنتا گیا
نور الہدیٰ نور ذبیحی بنارسی
MORE BYنور الہدیٰ نور ذبیحی بنارسی
کار ہستی خار و گل کے درمیاں بنتا گیا
بجلیاں گرتی گئیں اور آشیاں بنتا گیا
اشک خوں بہنے کا چہرے پر نشاں بنتا گیا
میں مجسم درد و غم کی داستاں بنتا گیا
آہ و گریہ نا مناسب ضبط فطرت کے خلاف
درد میرے واسطے اک امتحاں بنتا گیا
ہر قدم ابھرا کیے نقش کف پائے جمال
گل پہ گل کھلتے گئے اور گلستاں بنتا گیا
وقت نے گلچیں کے ہاتھوں قسمت گل سونپ دی
یعنی ہر باغی چمن کا باغباں بنتا گیا
سچ تو یہ ہے انقلابات زمانہ کے طفیل
ایک ایک رہزن امیر کارواں بنتا گیا
سب مجھے کہتے ہیں خوشہ چین گلزار ذبیحؔ
نورؔ انہیں کے فیض سے رنگیں بیاں بنتا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.