کار وحشت میں بھی مجبور ہے انساں اب تک
دلچسپ معلومات
(اکتوبر، 1964ء)
کار وحشت میں بھی مجبور ہے انساں اب تک
ہاتھ اپنا ہے اور اپنا ہی گریباں اب تک
دھجیاں میرے گریباں کی اڑی پھرتی ہیں
گونجتا ہے مرے نعروں سے بیاباں اب تک
کب سے میں کنج غم دل میں چھپا بیٹھا ہوں
یاد کرتی ہے مجھے شورش دوراں اب تک
میرے حصے میں بھی ہے دولت بیداریٔ شب
اک خلش سی ہے متاع غم پنہاں اب تک
بت کدہ ٹوٹ کے کعبے کی بنا ڈال گیا
دل جو اجڑا تو ہے اک عمر سے ویراں اب تک
تو گزر گاہ تمنا میں تھا اک پرتو ماہ
میں اندھیروں میں بھٹکتا ہوں ہراساں اب تک
تو وہ سورج تھا کہ موسم کی نہ تھی تجھ کو خبر
میں ہوں آندھی میں چراغ تہ داماں اب تک
میرے احساس کی گرمی مرے دل کی برسات
سب رتیں ہیں تری آنکھوں سے نمایاں اب تک
ایک صورت تھی جو آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں
ایک وحشت تھی جو رکھتی ہے پریشاں اب تک
چند یادیں ہیں مری زیست کا حاصل باقرؔ
انہیں یادوں کے سہارے ہوں غزل خواں اب تک
- کتاب : Kulliyat-e-Baqir (Pg. 122)
- Author : Sajjad Baqir Rizvi
- مطبع : Sayyed Mohammad Ali Anjum Rizvi (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.