کار گر عشق میں اب تک غم پنہاں نہ ہوا
دلچسپ معلومات
سن 1921 میں یہ غزل لکھی گئی ۔ فراق گورکھپوری ایک بار جیل بھی گئے تھے، تو وہاں دوسرے مجاہدین آزادی بھی تھے ۔ ایک رات انھیں آزادی کے متوالوں کے درمیان جیل میں ایک محفل سجائی گئی، وہیں فراق نے یہ غزل بھی سنائی ۔
کار گر عشق میں اب تک غم پنہاں نہ ہوا
میں ابھی بے خبر کلفت ہجراں نہ ہوا
مانع دشت نوردی مجھے زنداں نہ ہوا
در و دیوار سے کچھ ہوش کا ساماں نہ ہوا
باغ میں باد صبا بھیجنے والے ہر صبح
ہم اسیران قفس پر کبھی احساں نہ ہوا
نگہ ناز ہے اور اہل ہوس کے دل میں
ہائے وہ تیر جو پیوست رگ جاں نہ ہوا
دشت غربت میں پریشاں نہیں دل تنگ نہیں
ابھی دیوانہ ترا قابل زنداں نہ ہوا
ہم نے دیکھا ہے وہ انداز جنوں بھی جو کبھی
چاک دل چاک جگر چاک گریباں نہ ہوا
رنگ کو حسرت پرواز ابھی باقی ہے
عالم نکہت برباد گلستاں نہ ہوا
دار سے اٹھتا ہے اک نعرۂ مستانہ ہنوز
ہائے وہ درد جو شرمندۂ درماں نہ ہوا
ہاں بجھا دے دل سوزاں کو مگر تو جانے
بزم ہستی میں جو یہ سوختہ ساماں نہ ہوا
خوبیاں تجھ میں ہیں اے عشق زمانے بھر کی
یہ تو کچھ دعویائے ہمتائیٔ خوباں نہ ہوا
حسن گلزار سے دل چاک ہوا جاتا ہے
جوش گل چارہ گر تنگئ داماں نہ ہوا
سرحدیں جلوہ گہہ ناز سے جس کی نہ ملیں
وہ تو اک کھیل ہوا چاک گریباں نہ ہوا
کہتی ہے وصل کی شب وہ نگہ خواب آلود
ختم ابھی قصۂ بیتابئ ہجراں نہ ہوا
آج تک صبح ازل سے وہی سناٹا ہے
عشق کا گھر کبھی شرمندۂ مہماں نہ ہوا
زندگی کیا وہ ترے غم سے جو دل تنگ نہیں
کیا وہ شیرازۂ ہستی جو پریشاں نہ ہوا
اہل زنداں کا یہ مجمع ہے ثبوت اس کا فراقؔ
کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.