کاش ایسا ہو کہ وہ ہم کو منانے آئے
کاش ایسا ہو کہ وہ ہم کو منانے آئے
اب بھی الفت ہے اسے ہم سے بتانے آئے
جو سناتا تھا سبھی وصل کے قصے ہم کو
اب وہ اک ہجر کا قصہ بھی سنانے آئے
بھر گئے زخم مرے دل کے پرانے سارے
اس سے کہہ دو کہ نئے زخم لگانے آئے
ہو گئے سرد جو یہ ہجر کے مارے جذبے
ایسے جذبات کو پھر آگ لگانے آئے
ہم بھی مانیں گے کہ وعدوں کا بڑا سچا ہے
ہم سے اک وعدہ کیا تھا وہ نبھانے آئے
ساتھ بیٹھے ہیں یہ اب ہاتھ میں ساغر تھامے
شیخ صاحب تھے نشہ ہم سے چھڑانے آئے
تیری یادوں میں تھا کھویا کہ مری آنکھ لگی
مجھ کو پھر رات گئے خواب سہانے آئے
آج اک سانپ سر راہ گزرتے دیکھا
شانؔ کچھ دوست مجھے یاد پرانے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.