کاش ہم کو اسی چاہت سے بلایا ہوتا
کاش ہم کو اسی چاہت سے بلایا ہوتا
اپنے اس عہد وفا کو ہی نبھایا ہوتا
سامنے آ کے وہ کرتے وہی شکوے ہم سے
اتنی سی بات کو اتنا نہ بڑھایا ہوتا
ترک الفت کا سبب غیروں کو بتلاتے ہیں
یوں نہ نظروں میں ہمیں سب کی گرایا ہوتا
یوں نہ کرتے ہمیں بدنام زمانے بھر میں
کچھ تو اپنا بھی ستم سب کو بتایا ہوتا
میرے افکار زمانے سے چھپاتے ہی رہے
رسم دنیا کے لیے کچھ تو جتایا ہوتا
کیسے سمجھے گی یہ دنیا یہ تغافل یہ تضاد
اپنا احوال بھی کچھ سب کو سنایا ہوتا
بات کرتے رہے ہنس ہنس کے مری غیروں سے
سر محفل تو مرا دل نہ جلایا ہوتا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 94)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.