کاش مٹتی ہوئی خوشبو کو سہارا مل جائے
کاش مٹتی ہوئی خوشبو کو سہارا مل جائے
شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول کا رشتا مل جائے
سوچے سورج سے کہو ایسی کوئی گردش نو
جسم سے جسم ملے سائے سے سایا مل جائے
دشت کہتا ہے مرے پاس تو قطرہ بھی نہیں
پیاس کہتی ہے مجھے پینے کو دریا مل جائے
نور پھر نور ہے چمکے گا وہ جگنو ہی سہی
شرط یہ ہے کہ اسے تھوڑا اندھیرا مل جائے
میرے ہر شعر کے لب پر یہ دعا ہے کاظمؔ
جس قبیلے کا ہوں شاعر وہ قبیلہ مل جائے
- کتاب : کتاب سنگ (Pg. 35)
- Author : کاظم جرولی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.