کاٹ کر کچھ پیڑ سب کو گھر بنانے کی پڑی ہے
کاٹ کر کچھ پیڑ سب کو گھر بنانے کی پڑی ہے
یار کس کو پنچھیوں کے آشیانے کی پڑی ہے
باپ کا سایا اٹھا ہے آج اس بیٹے کے سر سے
گاؤں کے لوگوں کو بس کھانے کھلانے کی پڑی ہے
بارہا ہی زخم دیتے جا رہے ہیں ہم نفس بھی
اور ہمیں بھی زخم کھا کر مسکرانے کی پڑی ہے
وہ کبھی تعلیم لینے جا نہیں پایا خدایا
پر اسے اولاد کو ہر دم پڑھانے کی پڑی ہے
اس بدن سے ہی تو رشتہ تھا یہاں پر دوست سب کا
مر گیا اب جسم تو جلدی جلانے کی پڑی ہے
ایک تو ہم عشق میں یاری گنوا بیٹھے ہیں شیکھرؔ
ایک ہم کو عشق جیون بھر نبھانے کی پڑی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.