کاوش غم بھی ہے ظالم اور تیری یاد بھی
کاوش غم بھی ہے ظالم اور تیری یاد بھی
یہ دل مضطر مرا ویراں بھی ہے آباد بھی
کیا سزائیں سوچی ہیں کچھ کیجئے ارشاد بھی
لیجئے حاضر ہوں میں بھی اور دل ناشاد بھی
روز اک تازہ ستم وہ بھی نئے انداز سے
داد لے ہی چھوڑتی ہے آپ کی بیداد بھی
دید کے قابل اگر ہے بے ستوں پر جوئے شیر
اک سبق عبرت کا ہے خون سر فرہاد بھی
یہ نہ پوچھو کس طرح کب کس لئے کس واسطے
بس یہ کافی ہے وہاں ہوتی ہے میری یاد بھی
پہلی ہی منزل میں دیکھو اس نے ہمت ہار دی
آسماں سر پر اٹھا کر رہ گئی فریاد بھی
بلبلوں کا پوچھنا گھبرا کے یہ صیاد سے
ہم اسیران قفس ہوں گے کبھی آزاد بھی
امتحاں ہم سخت جانوں کا کوئی کیا کھیل تھا
دیکھو پانی ہو گیا اب خنجر فولاد بھی
جس طرح تجھ کو ملے ہیں عیش و راحت کے شریک
مل رہے گا کوئی مجھ ناشاد کو ناشاد بھی
تھے ستم گر اب زمانے کی روش کو دیکھ کر
رفتہ رفتہ ہو گئے تم تو ستم ایجاد بھی
جس کے خواہاں تھے حسیں جس دل پہ مجھ کو ناز تھا
کچھ خبر بھی ہے تمہیں وہ ہو گیا برباد بھی
تنگ دل رکھتا ہے ظالم ہر گھڑی تو کیوں مجھے
ڈر ہے گھٹ گھٹ کر نہ اکتا جائے تیری یاد بھی
غیر جھوٹا ہے بھلا میں بے وفا تم کو کہوں
اس کی رنجش کیا نہ ہو جس بات کی بنیاد بھی
وعدۂ محشر وہ کر کے خود ہی یوں کہنے لگے
ہو تو سب کچھ جب رہے اس بھیڑ میں کچھ یاد بھی
کام آ جاتی ہے اکثر عشق میں دیوانگی
میں اگر سمجھو تو ہوں پابند بھی آزاد بھی
میں نے دیکھا ہے محبت کا اثر دونوں طرح
یہ کبھی آباد کرتی ہے کبھی برباد بھی
ناتوانی کا برا ہو وہ تو آئے وقت نزع
رک گئی ہونٹوں تک آ کر آخری فریاد بھی
اے فہیمؔ اس شوخ کی ہیں سب ادائیں انتخاب
بامزا ہے اس ستم ایجاد کی بیداد بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.