کب ایک رنگ میں دنیا کا حال ٹھہرا ہے
کب ایک رنگ میں دنیا کا حال ٹھہرا ہے
خوشی رکی ہے نہ کوئی ملال ٹھہرا ہے
تڑپ رہے ہیں پڑے روز و شب میں الجھے لوگ
نفس نفس کوئی پیچیدہ جال ٹھہرا ہے
خود اپنی فکر اگاتی ہے وہم کے کانٹے
الجھ الجھ کے مرا ہر سوال ٹھہرا ہے
بس اک کھنڈر مرے اندر جئے ہی جاتا ہے
عجیب حال ہے ماضی میں حال ٹھہرا ہے
کبھی نہیں تھا نہ اب ہے خیال سود و زیاں
وہی تو ہوگا جو اپنا مآل ٹھہرا ہے
اس ایک بات کو گزرے زمانہ بیت گیا
مگر دلوں میں ابھی تک ملال ٹھہرا ہے
جنوں کے سائے میں اب گھر بنا لیا دل نے
چلو کہیں تو وہ آوارہ حال ٹھہرا ہے
بڑے کمال کا نکلا وہ آدمی بلقیسؔ
کہ بے ہنر ہے مگر باکمال ٹھہرا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.