کب میرے لئے شام و سحر کاٹ رہا ہے
کب میرے لئے شام و سحر کاٹ رہا ہے
وہ اپنے سرابوں کا سفر کاٹ رہا ہے
میں اس کے تصور سے نکل آیا ہوں لیکن
تنہا ہوں مجھے میرا ہی گھر کاٹ رہا ہے
میں اس کی محبت میں گرفتار ہوا ہوں
پنچھی کی طرح وہ مرے پر کاٹ رہا ہے
آسیب کی الجھی ہوئی جڑ پھیل رہی ہے
دیوار کے سینے کو شجر کاٹ رہا ہے
آزاد تو رکھا ہے مجھے اہل قفس نے
یہ کون مری سوچ کے پر کاٹ رہا ہے
باہر کوئی مسموم ہوا ڈسنے لگی ہے
اندر سے مجھے درد جگر کاٹ رہا ہے
حالات کی موجوں میں مری ناؤ گھری ہے
پندار مرا گہرا بھنور کاٹ رہا ہے
اک میں ہی نہیں عشق کے آزار میں تنہا
اس کو بھی محبت کا اثر کاٹ رہا ہے
دنیا ہے فہیمؔ آج مرے عزم پہ حیراں
یوں وقت مجھے بار دگر کاٹ رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.