کب مٹائے سے مٹا رنج و صعوبت کا اثر
کب مٹائے سے مٹا رنج و صعوبت کا اثر
ہے وطن میں بھی مرے چہرے پہ غربت کا اثر
ہو چلا عشق مجازی پہ حقیقت کا اثر
آ چلا مجھ کو نظر کثرت میں وحدت کا اثر
ساری دنیا سے نہیں مجھ سے فقط بیزار تھے
اور اس سے بڑھ کے کیا ہوتا محبت کا اثر
بے وفا ان کا لقب ہے باوفا میرا خطاب
وہ ہے طینت کی خرابی یہ ہے الفت کا اثر
معجزہ دیکھا تصور کا تو آنکھیں کھل گئیں
پا رہا ہوں آج میں جلوت میں خلوت کا اثر
وہ پری سے حور بن جاتے یقینی بات تھی
ان کی سیرت پر اگر پڑ جاتا صورت کا اثر
ان پہ دل ہی آ گیا لے ہی گئے وہ میرا دل
یہ تقاضا حسن کا تھا وہ شرارت کا اثر
اک جگہ رہتا نہ تھا ٹک کر یہ عادت تھی مری
کھینچ لایا خلد تک اب مجھ کو وحشت کا اثر
خیر سے ملتے جو بد خونی ہے چہرے سے عیاں
یہ مثل سچ ہے کہ ہو جاتا ہے صحبت کا اثر
آپ کیا تھے ہو گئے کیا فیض سے استاد کے
دیکھ لیجے شادؔ یہ ہوتا ہے نسبت کا اثر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.