کب سے بیٹھا ہوں التجا کے لئے
کب سے بیٹھا ہوں التجا کے لئے
سن لو دو باتیں اب خدا کے لئے
فیض معشوق عاشقوں کو کیا
نکہت زلف ہے صبا کے لئے
ناتوانی میں ناتوانی ہے
ہاتھ اٹھتے نہیں دعا کے لئے
خیر ہے کچھ تو اس میں جو چپ ہوں
منہ نہ کھلوایئے خدا کے لئے
کیا دل ناصبور لے جاؤں
نگہ صبر آزما کے لئے
در جاناں کی خاک ہے اکسیر
دل بیمار کی شفا کے لئے
سوگ میں دل کے دیدے پھوٹ رہے
آشنا روئے آشنا کے لئے
بھیس بدلے ہوئے رقیب کا آج
میں چلا عرض مدعا کے لئے
اس تغافل کی انتہا ہی نہیں
کوئی حد چاہئے سزا کے لئے
وہ بہت منفعل ہیں دیکھو خیالؔ
چھوڑوں شکوؤں کو اب خدا کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.