کب سے موہوم امیدوں کا صلہ رکھا ہے
کب سے موہوم امیدوں کا صلہ رکھا ہے
تیری یادوں کا بہت اونچا دیا رکھا ہے
سن کے مجبور تمنا کی سسکتی آہیں
لوریاں دے کے اسے دل نے سلا رکھا ہے
عمر گزری ہے مگر خود سے جدا کر نہ سکے
بھولنے والے تری یاد میں کیا رکھا ہے
ساقیا مہر بلب کر کے صلہ کیا پایا
حشر کچھ اور خموشی نے بپا رکھا ہے
یاد بھی کر نہ سکے بھول بھی پائے نہ جسے
اک وہی عہد وہ پیمان وفا رکھا ہے
اس کی تعبیر بھلا کون کرے گا صادقؔ
جاگتی آنکھوں نے جو خواب سجا رکھا ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 115)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.