کبھی عذابوں میں بس رہی ہے کبھی یہ خوابوں میں کٹ رہی ہے
کبھی عذابوں میں بس رہی ہے کبھی یہ خوابوں میں کٹ رہی ہے
یہ مختصر سی ہے زندگی جو ہزار خانوں میں بٹ رہی ہے
کہیں پہ خوشیوں کی بارشیں ہیں کہیں پہ نغمات عیش و مستی
مگر غریبوں کے گلشنوں سے خزاں ہی بڑھ کر لپٹ رہی ہے
کہاں ہے جذبے محبتوں کے کہاں ہے رسم وفا پرستی
ملی تھی تہذیب کی بدولت وہی محبت تو گھٹ رہی ہے
لگے ہیں بڑھنے نظر نظر میں فحاشیوں کے تمام سپنے
سروں پہ سایہ فگن تھی کل تک ردا حیا کی سمٹ رہی ہے
جو سن رسیدہ شجر تھے سارے جڑوں سے اپنی اکھڑ رہے ہیں
زمیں کے رشتوں کی چھاؤں یارو سروں سے اپنے بھی چھٹ رہی ہے
کسے سنائیں گے اب وہ ذاکرؔ کہ چاہتوں میں کشش نہیں ہے
نظر سے اوجھل میں ہو رہا ہوں نگہ سے وہ بھی تو ہٹ رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.