کبھی دیوار لرزتی ہے تو در چیختا ہے
کبھی دیوار لرزتی ہے تو در چیختا ہے
جانے کیا بات ہے دن رات یہ گھر چیختا ہے
سارے ماحول پہ طاری ہے کثافت ایسی
سانس لیتے ہوئے گھبرا کے شجر چیختا ہے
خامشی حوصلہ ظالم کا بڑھا دیتی ہے
اور خطا کار ہے مظلوم اگر چیختا ہے
روح میں ڈنک چبھوتی ہے ستم پیشہ حیات
ایک خاموش فغاں ہے کہ بشر چیختا ہے
کتنا بے خوف تھا وہ غار کی تاریکی میں
آج ہاتھوں میں لیے شمس و قمر چیختا ہے
کبھی تاریخ اچھلتی ہے کٹے ہاتھ کے ساتھ
کبھی نیزے پہ اچھالا ہوا سر چیختا ہے
پیش کرتا ہے چھپا کر غم پنہاں لیکن
اس کی تحریر کا ہر زیر و زبر چیختا ہے
سخت بیمار سہی تاجؔ ابھی زندہ ہے
اک مصور کا مگر خون جگر چیختا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.