کبھی دل یاد کرتا ہے کبھی مجھ سے جھگڑتا ہے
کبھی دل یاد کرتا ہے کبھی مجھ سے جھگڑتا ہے
جو باہر دسترس سے ہوں انہی باتوں پہ اڑتا ہے
کسی کھنڈر پرانے میں بدلتا جا رہا ہوں میں
کہ روزانہ ہی اندر سے مرا یہ جسم جھڑتا ہے
کسی بھی اور سے آؤ مرے ہی پاس آؤ گے
نشاں تیرے بھی رستے کا مرے رستے میں پڑتا ہے
اسے وحشت سے جانے کیوں محبت ہو رہی ہے اب
کسی زنجیر کو خود ہی مرا پاؤں پکڑتا ہے
مجھے ہی مار ڈالیں گے جو میرے یار بنتے ہیں
سمندر راستے میں ہے قدم آگے کو بڑھتا ہے
یہ حسرت دید صحرا کی کرے مجبور ہجرت پر
بھلا کب اتنی آسانی سے رنگ عشق چڑھتا ہے
چلو اپنی اناؤں کو کریں سجدہ خوشی سے ہم
مگر خوابوں کا ناصرؔ جی نگر سارا اجڑتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.