کبھی گمان سے باہر کبھی گمان میں ہے
کبھی گمان سے باہر کبھی گمان میں ہے
وہ بے نشان جو موجود ہر نشان میں ہے
میں بے زبان نہیں ہوں بہ پاس حرمت حرف
گڑا ہوا کوئی خنجر مری زبان میں ہے
سبھی زمین کے رشتوں سے کٹ رہے ہیں ہم
قدم زمیں پہ دماغ اپنا آسمان میں ہے
میں اپنی ذات کی پاتال تک کو چھو آئی
جو ڈوبنے میں نشہ ہے کہاں اڑان میں ہے
پہنچ سے اپنی بہت دور جا چکی ہوں تو پھر
کوئی تو عالم نایافت میرے دھیان میں ہے
کوئی تو ہوگی بہر حال مصلحت تیری
وگرنہ تیر تو اب تک تری کمان میں ہے
اب اپنی ذات کا ادراک ہو چلا ہے شبینؔ
کہ میری جان میں ہے جو بھرے جہان میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.