کبھی علم نے اسے مات دی کبھی آگہی نے ہرا دیا
کبھی علم نے اسے مات دی کبھی آگہی نے ہرا دیا
جسے تیرگی نہ ہرا سکی اسے روشنی نے ہرا دیا
کبھی خشک ان کے نہ لب ہوئے رہی جن کی قطروں سے دوستی
جو سمندروں کے رفیق تھے انہیں تشنگی نے ہرا دیا
جنہیں بے بسی نہ ہرا سکی انہیں پھر نہ کوئی ہرا سکا
جو ضرورتوں کے غلام تھے انہیں ہر کسی نے ہرا دیا
ہمیں سر بلندی عطا ہوئی جہاں جس محاذ پہ ڈٹ گئے
مرے روز جس کی طلب میں ہم اسی زندگی نے ہرا دیا
نہ ہے علم و فن کی طلب تمہیں نہ ترقیوں کا جنون ہے
جو تمہارا طرز حیات ہے تمہیں بس اسی نے ہرا دیا
رہ عشق میں جو فنا ہوئے انہیں جاودانی عطا ہوئی
جو اسیر حسن حیات تھے انہیں بے حسی نے ہرا دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.