کبھی جلتا بدن دیکھا کبھی اٹھتا دھواں پایا
کبھی جلتا بدن دیکھا کبھی اٹھتا دھواں پایا
گناہوں کے تسلسل سے عذاب جاں رواں پایا
رموز بندگی ہم پر کھلے ان کے وسیلے سے
جنہیں عالم نے رحمت کا محیط بیکراں پایا
مقدر سے بھلا کیوں کر نہ اہل دل کریں شکوہ
کہ شمع جاں جلا کر بھی اندھیرا درمیاں پایا
بھرم اپنی خرد مندی کا ٹوٹا اس گھڑی جس دم
حباب دجلہ میں ہم نے سمندر کو نہاں پایا
بہار آئی چمن میں اور اسیران قفس نے بھی
نئی رت کی ہوا پائی نیا اک پاسباں پایا
مرا سر دیکھ کر بولے مرے احباب دشمن سے
یہ کس سرکش کا سر ہے جو سر نوک سناں پایا
نہ غنچہ کا نہ بلبل کا نہ ہی باد بہاری کا
چمن میں تو فقط ہم نے نشان کشتگاں پایا
خود اپنی ذات میں ہم قید ہو کر رہ گئے امجدؔ
دل ناداں کو ہم نے بھی وگرنہ خونچکاں پایا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.