کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے
کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے
شراب خانے پہ ابر بہار ہوتا ہے
کسی کا غم ہو مرے دل پہ بار ہوتا ہے
اسی کا نام غم روزگار ہوتا ہے
الٰہی خیر ہو ان بے زباں اسیروں کی
قفس کے سامنے ذکر بہار ہوتا ہے
چمن میں ایسے بھی دو چار ہیں چمن والے
کہ جن کو موسم گل ناگوار ہوتا ہے
سوال جام ترے میکدے میں اے ساقی
جواب گردش لیل و نہار ہوتا ہے
ہمیں وفا پہ وفا آج تک نہ راس آئی
انہیں ستم پہ ستم سازگار ہوتا ہے
لبوں پہ آ گیا دم بند ہو چکیں آنکھیں
چلے بھی آؤ کہ ختم انتظار ہوتا ہے
کہاں وہ وصل کی راتیں کہاں یہ ہجر کے دن
خیال گردش لیل و نہار ہوتا ہے
جنوں تو ایک بڑی چیز ہے محبت میں
ذرا سے اشک سے راز آشکار ہوتا ہے
مرے جنازے کو دیکھا تو یاس سے بولے
یہاں پہ آدمی بے اختیار ہوتا ہے
خدا رکھے تمہیں کیا کوئی جور بھول گئے
جو اب تلاش ہمارا مزار ہوتا ہے
ہمارا زور ہے کیا باغباں اٹھا لیں گے
یہ آشیاں جو تجھے ناگوار ہوتا ہے
عجیب کشمکش بحر غم میں دل ہے قمرؔ
نہ ڈوبتا ہے یہ بیڑا نہ پار ہوتا ہے
- کتاب : Rashq-e-Qamar (Pg. 135)
- Author : Qamar Jalalvi
- مطبع : Shaikh Shokat ali and Sons
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.