کبھی جو بھولے سے دل میں خیال یار آیا
کبھی جو بھولے سے دل میں خیال یار آیا
شباب رفتہ کو میں دور تک پکار آیا
کچھ اس ادا سے مرا جان انتظار آیا
مجھے خود اپنی نظر پر نہ اعتبار آیا
کیا تھا آنے کا وعدہ وہ ایک بار آیا
نہ آ سکا سر بالیں سر مزار آیا
یہ میری آہ کی تاثیر تھی یا اس کی ضد
وہ بے قرار ہوا جب مجھے قرار آیا
بلائیں لے کے مرے زخم دل کو چوم لیا
ستم ظریف کو آیا تو کس پہ پیار آیا
ہمارے بعد جو آئے ہیں پوچھ لو ان سے
کہ ان کے پاؤں کے نیچے بھی کوئی خار آیا
جس آئنے کو نظر بھر کے میں نے دیکھ لیا
اس آئنے میں نظر مجھ کو عکس یار آیا
پلائی تھی مرے ساقی نے جس میں پہلے پہل
وہ جام میرے تصور میں بار بار آیا
سنی تھی اپنی ہی آواز دشت وحشت میں
میں اپنے آپ کو چاروں طرف پکار آیا
گیا تھا ترک محبت کا فیصلہ کرنے
مگر میں آخری بازی بھی ان سے ہار آیا
دل و جگر کو لٹا کر نظر گذر کے لئے
میں تیرے حسن کا صدقہ بھی آج اتار آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.