کبھی جنوں تو کبھی آگہی کی قید میں ہوں
کبھی جنوں تو کبھی آگہی کی قید میں ہوں
میں اپنے ذہن کی آوارگی کی قید میں ہوں
شراب میرے لبوں کو ترس رہی ہوگی
میں رند تو ہوں مگر تشنگی کی قید میں ہوں
نہ کوئی سمت نہ جادہ نہ منزل مقصود
یگوں یگوں سے یوں ہی بے رخی کی قید میں ہوں
کسی کے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا میں نے
سزا یہ پائی کی دیوانگی کی قید میں ہوں
یہ کس خطا کی سزا میں ہیں دوہری زنجیریں
گرفت موت کی ہے زندگی کی قید میں ہوں
نہ جانے کتنی نقابیں الٹتا جاتا ہوں
جنم جنم سے میں بے چارگی کی قید میں ہوں
یہاں تو پردۂ سیمیں پہ چل رہی ہے فلم
میں جس جگہ ہوں وہاں روشنی کی قید میں ہوں
جہاں میں قید سے چھوٹوں وہیں پہ مل جانا
ابھی نہ ملنا ابھی زندگی کی قید میں ہوں
غرض نصیب میں لکھی رہی اسیری ہی
کسی کی قید سے چھوٹا کسی کی قید میں ہوں
گناہ یہ ہے کہ کیوں اپنا نام رکھا نورؔ
وہ دن اور آج کا دن تیرگی کی قید میں ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.