کبھی کہکشاں سے گزر گیا کبھی آسماں سے گزر گیا
کبھی کہکشاں سے گزر گیا کبھی آسماں سے گزر گیا
تجھے کچھ خبر بھی ہے بے خبر میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کبھی بھول کر بھی زبان پر اگر آیا نام بہار کا
وہیں ایک شعلۂ برق دم مرے آشیاں سے گزر گیا
جسے تو نے دیکھ کر اک نظر کبھی پھر نہ مڑ کے نگاہ کی
لئے دل میں دید کی آرزو وہی اس جہاں سے گزر گیا
نہ تھا کوئی گل جو نصیب کا تو کمی تھی کون سی خار کی
لئے میں غم تہی دامنی بھرے گلستاں سے گزر گیا
تھی عجیب عشق کی بے خودی کہ زبان حسن کی بن گئی
ترا تذکرہ تھا وہاں وہاں میں جہاں جہاں سے گزر گیا
جسے دھن ہو تیری تلاش کی اسے کیا نشیب و فراز سے
مجھے کچھ بھی اس کا پتہ نہیں میں کہاں سے گزر گیا
کہاں مجھ میں اتنا کمال تھا ترا لطف شامل حال تھا
جو میں جھیلتا ہوا سختیاں ہر اک امتحاں سے گزر گیا
نہ تو شوق جہد بقا گھٹا نہ تو شان ضبط فغاں مٹی
میں ترے ہجوم خیال میں غم دو جہاں سے گزر گیا
یہ نہیں کہ پاس ادب نہ تھا مری بے خودی کا سبب یہ تھا
ترے آستاں ہی کی فکر میں ترے آستاں سے گزر گیا
نہیں جس کا آپ کو کچھ پتہ یہ وہی تھا ناطقؔ بے نوا
غم و درد کا لئے کارواں جو ابھی یہاں سے گزر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.