کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا
کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا
اسے دیکھا خود کو بھول گئے لہرا لہرا کر رقص کیا
ترے ہجر کی آگ میں جلتے تھے ہم انگاروں پر چلتے تھے
کبھی تپتی ریت پہ ناچے ہم کبھی خود کو جلا کر رقص کیا
کیا خوب مزا تھا جینے میں اک زخم چھپا تھا سینے میں
اس زخم کو کھرچا ناخن سے اور خون بہا کر رقص کیا
وہ جب نہ ملا محرابوں میں جسے ڈھونڈ رہے تھے خوابوں میں
سجدے سے اٹھایا سر اپنا اور ہاتھ اٹھا کر رقص کیا
کبھی تھمتی ہے کبھی چڑھتی ہے مری مستی گھٹتی بڑھتی ہے
کبھی خاموشی کبھی جھوم لئے کبھی شور مچا کر رقص کیا
سب بستی جنگل ہو آئے مستی میں مقتل ہو آئے
وہاں جنگ لڑی خود سے ہم نے اور تیغ چلا کر رقص کیا
کہیں میرا خدا ناپید نہیں کسی خاص جگہ کی قید نہیں
تسبیح پڑھی بت خانے میں محراب میں آ کر رقص کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.