کبھی خرد کا کبھی عشق کا بہانا تھا
کبھی خرد کا کبھی عشق کا بہانا تھا
مری حیات کا مقصد فریب کھانا تھا
تری نگاہ کو گہرائیوں میں جانا تھا
مرے سکوت کی ہر تہہ میں اک فسانا تھا
چمن کے ایک ہی گوشے میں ہے ہجوم بہار
یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا آشیانہ تھا
خزاں کا خوف تھا غنچوں کو فصل گل میں مگر
وہ مسکرا کے رہے جن کو مسکرانا تھا
جہاں ہوا تھا انہیں پا شکستگی کا گماں
مسافروں کو وہیں سے قدم بڑھانا تھا
شب فراق کے مارے ہوئے نہ دیکھ سکے
طلوع صبح کا منظر بہت سہانا تھا
وہ بے خبر ہیں محبت سے جو یہ کہتے ہیں
کسی کی یاد میں دنیا کو بھول جانا تھا
جہاں جہاں میں رکا وقت کے قدم بھی رکے
مرا وجود خود اپنی جگہ زمانہ تھا
حضور حسن مجال نظر نہ تھی شاہدؔ
ہمیں خود اپنے مقدر کو آزمانا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.