کبھی ماضی کبھی فردا سے ڈرایا ہے مجھے
کبھی ماضی کبھی فردا سے ڈرایا ہے مجھے
کیسا فرزانوں نے دیوانہ بنایا ہے مجھے
زندگی تیری عنایات کا حاصل یہ ہے
ایک قاتل ہے کہ اپنا نظر آیا ہے مجھے
جانے کیا بات ہے تاریخ نے بادیدۂ تر
میرا افسانہ کئی بار سنایا ہے مجھے
مجھ سے ظلمت کدۂ غم کی عنایت پوچھو
کتنے سایوں کے تعاقب سے بچایا ہے مجھے
اب نہ وہ جام نہ وہ پیاس نہ وہ سوز طلب
سرد جب ہو گئی محفل تو جگایا ہے مجھے
میں نہ قاتل ہوں نہ مقتول نہ منصف یارب
کس لیے عرصۂ محشر میں بلایا ہے مجھے
میرے چہرے پہ نہ تھیں اتنی خراشیں یارو
تم نے ٹوٹا ہوا آئینہ دکھایا ہے مجھے
کل تھا مسجود نظر آج تماشہ ہوں شمیمؔ
کس قیامت کی بلندی سے گرایا ہے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.