کبھی مستور رہتی ہے کبھی معلوم ہوتی ہے
کبھی مستور رہتی ہے کبھی معلوم ہوتی ہے
تجلی اک فریب آگہی معلوم ہوتی ہے
کرشمہ سازیٔ وارفتگی معلوم ہوتی ہے
نگاہ شوق تیری آرسی معلوم ہوتی ہے
نشیمن پر یہ آفت بھی نئی معلوم ہوتی ہے
فضا میں اک تڑپتی روشنی معلوم ہوتی ہے
جو ایثار و محبت کی کمی معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا دولت دل سے تہی معلوم ہوتی ہے
ترے قرباں پسینہ پونچھ ماتھے سے ندامت کا
کہ ٹھنڈی دھوپ پھیکی چاندنی معلوم ہوتی ہے
یقیناً آبلہ پا کوئی گزرا ہے بیاباں سے
زمیں جلتی ہے کانٹوں میں نمی معلوم ہوتی ہے
خدا جانے لکھا اہل وفا نے کیسا افسانہ
زمانہ ہو گیا بات آج کی معلوم ہوتی ہے
یہاں کس سے مداوا چاہوں اپنے درد کا ناطقؔ
مجھے تو ساری دنیا اجنبی معلوم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.