کبھی قریب کبھی دور سے گزرتے ہوئے
کبھی قریب کبھی دور سے گزرتے ہوئے
عذاب دیتے ہیں کچھ لوگ میرے برتے ہوئے
قریب پانی کے جانا نہیں کسی صورت
وصیت آگ نے کی تھی شرر کو مرتے ہوئے
بنا ہے جب سے مرا جسم حیرتوں کا مقام
میں دیکھتا ہوں جہاں میں سبھی کو ڈرتے ہوئے
یتیم لگنے لگا عشق میرا مجھ کو خود
میں رو پڑا ہوں نظر سے تری اترتے ہوئے
ہوا ہے رنج مجھے رات کی نحوست کا
کہ خواب دور ہوئے ٹوٹ کر بکھرتے ہوئے
ہماری آنکھوں پہ خالی نگاہ رکھتا ہے
وہ آئنے کو نہیں دیکھتا سنورتے ہوئے
خیال یوں ہی ہے اک گزرا بے معانی سا
دل و دماغ مرا بے قرار کرتے ہوئے
وہی ہے عشق پرانا اسے نیا نہ کہو
جھجھک رہے ہیں جہاں لوگ پاؤں دھرتے ہوئے
وہ میرے ٹوٹے مراسم کا نقش آخر تھا
کہ تھم گئے ہیں مرے ہاتھ رنگ بھرتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.