کبھی سوئے دشت نکل پڑے کبھی سوئے دار چلے گئے
کبھی سوئے دشت نکل پڑے کبھی سوئے دار چلے گئے
تری چاہ میں نہ کہاں کہاں ترے بے قرار چلے گئے
جو کتاب دل میں تھی پنکھڑی کسی سر کشیدہ گلاب کی
وہ دبی رہی تو ورق ورق ہوئے لالہ زار چلے گئے
انہیں کام تھا ترے کام سے ترے ذکر سے ترے نام سے
وہ جو آبلہ پا برہنہ پا سر دشت خار چلے گئے
نہ وہ دھڑکنیں نہ وہ الجھنیں نہ وہ وسوسے نہ وہ قہقہے
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
مرے پیرہن کی گواہیاں نہ سنی گئیں نہ لکھی گئیں
کہ زنان مصر کی بات پر ہی عزیزدار چلے گئے
نہ وہ رسم جامہ دری رہی نہ مزاج بخیہ گری رہا
وہ جنوں شعار کہاں رہے وہ کرم نثار چلے گئے
جو نہ دیر میں نہ حرم میں تھے جو اسیر حلقۂ غم میں تھے
وہ نوائے درد پہ نغمہ خواں ترے شب گزار چلے گئے
میں سکوت دامن دشت سے جہاں گفتگو میں مگن رہا
وہاں جھیل تھک کے رکی رہی مگر آبشار چلے گئے
ترا درد بزمیؔٔ ناتواں نہ ادھر سنا نہ ادھر سنا
کہ دیار نکہت و نور سے ترے غم گسار چلے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.