کبھی تصور میں آ رہی ہو کبھی تخیل پہ چھا رہی ہو
کبھی تصور میں آ رہی ہو کبھی تخیل پہ چھا رہی ہو
مرے شبستان آرزو کو نگار خانہ بنا رہی ہو
رہ وفا میں قدم قدم پر نئی نئی شرط لا رہی ہو
یہ کس نے بہکا دیا ہے تم کو یہ کیا شگوفے کھلا رہی ہو
یہ خود پرستئ ناروا ہے یہ بے وفائی کی انتہا ہے
تمہاری خاطر جو لٹ چکا ہے اسی سے آنکھیں چرا رہی ہو
بگاڑ میں اک بناؤ سا ہے لگاوٹوں میں کھچاؤ سا ہے
دیا امیدوں کا میرے دل میں جلا رہی ہو بجھا رہی ہو
فضا بھی ناساز ہے جہاں کی وہاں وفا سانس لے گی کیوں کر
ہوا بھی غماز ہے جہاں کی وہاں مجھے کیوں بلا رہی ہو
اگرچہ صحرائے زندگی میں کوئی مرا ہم سفر نہیں ہے
مگر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ تم مرے ساتھ آ رہی ہو
پھر آج یاد ان کی آ رہی ہے مگر اس انداز سے کہ احساںؔ
عروس نو جیسے پہلی شب میں بدن کو اپنے چرا رہی ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.