کبھی زمین کبھی آسماں سے گزری ہے
کبھی زمین کبھی آسماں سے گزری ہے
مری حیات بڑے امتحاں سے گزری ہے
خوشی کی دھوپ میسر نہ ہو سکی مجھ کو
غموں کی آندھی مری داستاں سے گزری ہے
بتاؤں کیا میں تمہیں زندگی کے بارے میں
مری ہر ایک شب اشک رواں سے گزری ہے
کسی کے ہجر میں برباد داستان حیات
غزل کی شکل میں سارے جہاں سے گزری ہے
تمہارے ہجر میں آنکھیں رہی ہیں نم ہر پل
مری زبان بھی آہ و فغاں سے گزری ہے
دھڑکنے لگ گیا تیزی سے دل کبھی جب بھی
تمہاری یاد دل آشیاں سے گزری ہے
ہر ایک سمت سے آتی ہے پیار کی خوشبو
زبان میرؔ کی شاید یہاں سے گزری ہے
ہر ایک پھول کو مرجھا گئی علی افضلؔ
نہ جانے کیسی ہوا گلستاں سے گزری ہے
نبی کے دین کی عظمت کے واسطے افضلؔ
تمام نسل علی امتحاں سے گزری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.