کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
ترے کوچے میں جو ہم آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے
گئے باغ میں کسی گل تلے تو وہاں بھی اپنا نہ جی لگا
لے برنگ غنچہ جمائیاں تجھے یاد کر کے چلے گئے
کہیں غش میں تھا میں پڑا ہوا سنو اور قہر کی بات تم
مجھے دیکھنے کو جو آئے وہ تو بگڑ سنور کے چلے گئے
کروں مو و زلف کا کیا بیاں کہ عجیب قصہ ہے درمیاں
یہ ادھر کو سینے پہ آ رہی وہ ادھر کمر کے چلے گئے
اب انیس ہے نہ جلیس ہے نہ رفیق ہے نہ شفیق ہے
ہم اکیلے گھر میں پڑے رہے سبھی لوگ گھر کے چلے گئے
یہ عجب زمانے کی رسم ہے کہ جنہوں پہ مرتے تھے ہم سدا
پس مرگ آ وہی خاک میں ہمیں آہ دھر کے چلے گئے
چڑھے کوٹھے پر تو تھے مصحفیؔ پہ نہ داؤ پر وہ مرے چڑھے
میں چڑھاؤں جب تلک آستیں اٹھے اور اتر کے چلے گئے
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(divan-e-soom) (Pg. 230)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.