کڑی تھی دھوپ سر چکرا رہا تھا
کڑی تھی دھوپ سر چکرا رہا تھا
میں بھوکا تھا بہت گھبرا رہا تھا
تمہارا شہر کیا تھا کیا بتاؤں
تماشہ ہر کوئی دکھلا رہا تھا
تھے اس کے ہاتھ میں کشکول لیکن
وہ مہر و ماہ کو شرما رہا تھا
انا کا سانپ میں نے مار ڈالا
بہت نقصان یہ پہنچا رہا تھا
امیر شہر سے یہ کون پوچھے
ستم کیوں مفلسوں پر ڈھا رہا تھا
لگے ٹھوکر تو خود ہی تم سنبھل جاؤ
سفر کا تجربہ بتلا رہا تھا
اکیلی تھی کوئی لڑکی سڑک پر
بدن جس کا مجھے للچا رہا تھا
یہ کیسا خواب میں نے فیضؔ دیکھا
سمندر میری جانب آ رہا تھا
- کتاب : Handwriting File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.