کہا ہے کس نے کہ اب تو شاید گلاب موسم ادھر نہ آئے
کہا ہے کس نے کہ اب تو شاید گلاب موسم ادھر نہ آئے
بھلا یہ ممکن ہے جانے والا پلٹ کے فیروزؔ گھر نہ آئے
ہوا وہ عادی کچھ اس طرح سے قفس کے مجبور روز و شب کا
رہا ہوا بھی مگر پرندے کے دیر تک بال و پر نہ آئے
اکیلگی کے عذاب موسم اب اپنی ہستی پہ بھوگ پیارے
کہ خود تمہی نے مجھے کہا تھا تری دعا میں اثر نہ آئے
منافقت کے فریب صحرا میں دھوپ نے چاٹ لی ہیں آنکھیں
کڑی رتوں کی مسافتوں میں رفاقتوں کے شجر نہ آئے
میں شام شہر وفا میں فیروزؔ اس کی آواز ڈھونڈھتا ہوں
جہاں وہ مل کے بچھڑ گیا تھا وہ سنگ منزل نظر نہ آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.