کہا کسی نے کہ ہے چھلاوا کسی نے تشبیہ دی پری سے
کہا کسی نے کہ ہے چھلاوا کسی نے تشبیہ دی پری سے
وہ آج محفل میں جلوہ آرا ہوئے ہیں اس شان دلبری سے
کوئی اشارہ نہ کچھ کنایہ کہی ہے اک بات سادگی سے
ابھی ہو ناداں نصیب اعدا کہیں اٹھاؤ نہ زک کسی سے
نہیں کہ دل آشنا نہیں ہے رموز و آداب عاشقی سے
کچھ اس میں ترک وفا نہیں ہے اٹھائیں گر ہاتھ زندگی سے
لیا کف پا کا میں نے بوسہ کچھ اس میں ترک ادب نہیں تھا
چلو ہٹاؤ قصور میرا خطا بھی ہوتی ہے آدمی سے
مریض کا اب لبوں پہ دم ہے شفا کی امید اس کی کم ہے
جو اب بھی آؤ بڑا کرم ہے کہ سانس ہیں چند آخری سے
نہیں بھلے ان کے طور یہ بھی کوئی بلا ہوگی اور یہ بھی
نہ ہو کوئی طرز جور یہ بھی کہ آ گئے باز کجروی سے
بڑا ہی پر لطف ہوگا منظر کریں گے اس دم سلام جھک کر
کہ دیکھتے ہو گے پیش داور ہمیں پشیماں سے ملتجی سے
ملے گا اغیار کو بہانہ اٹھائے گا انگلیاں زمانہ
جنہیں ہے پاس وفا یہ مانا وہ منہ نہ موڑیں گے بندگی سے
سوال سائل کا یوں نہ موڑو جواب سے اس کا دل نہ توڑو
دل شکستہ کو بلکہ جوڑو تم اپنے الطاف خسروی سے
سنائیں کیا ماجرائے الفت ہے ایک عالم میں اس کی شہرت
تمہارے جلوے ہماری وحشت ہیں دیدنی سے شنیدنی سے
عجیب ہے روگ عاشقی کا کرے بھی کوئی تو کیا مداوا
نہ خارؔ ایسا مریض دیکھا تڑپ اٹھے درد کی کمی سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.