کہاں ہے شان کریمی حساب ہوتا ہے
کہاں ہے شان کریمی حساب ہوتا ہے
گناہ گار تو اب لا جواب ہوتا ہے
تری جناب میں جو باریاب ہوتا ہے
سکوں نصیب اسے بے حساب ہوتا ہے
کبھی خلش ہے کبھی اضطراب ہوتا ہے
یہ دل کا آنا بھی جی کا عذاب ہوتا ہے
جو پوچھ لیتا ہے ارباب فہم کا بھی مزاج
کتاب زیست میں ایسا بھی باب ہوتا ہے
یہ ہم سے پوچھ اسے جویائے عیش کیا جانے
جہاں میں غم بھی خوشی کا جواب ہوتا ہے
دیار حسن میں چشم کرم کہیں جس کو
خیال و خواب کی دنیا کا خواب ہوتا ہے
بتو خدا تو خود آتا ہے یاد شام فراق
کبھی جو حد سے سوا اضطراب ہوتا ہے
شعاع مہر سے جس کو لگی ہوئی ہو لگن
مرے لئے تو وہی آفتاب ہوتا ہے
مرے مذاق کی دنیا مجھے نہیں ملتی
مرا اصول کہاں کامیاب ہوتا ہے
جنہیں ہو تاب نظر بہر دید آ جائیں
ہجوم حشر ہے وہ بے نقاب ہوتا ہے
اسی پہ اہل نظر کی بھی آنکھ پڑتی ہے
تری نگاہ میں جو انتخاب ہوتا ہے
رہے جو زیست میں محو ملال ناکامی
وہ نا مراد کہیں کامیاب ہوتا ہے
ہر اک گناہ پہ رحمت ہے موجزن اس کی
وہاں کرم ہی گنہ کا جواب ہوتا ہے
گھمنڈ کس لئے اس پر کرے کوئی خوشترؔ
یہ دور زیست برنگ حباب ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.