کہاں لے جاؤں امیدوں کی دنیا بزم امکاں سے
کہاں لے جاؤں امیدوں کی دنیا بزم امکاں سے
کہ قسمت کو شکایت ہے فراوانیٔ حرماں سے
ملا ہے وہ گداز عشق و ذوق درد جانکاہی
فضائیں تھرتھراتی ہیں مرے جذبات پنہاں سے
مری ہر سانس ہے ڈوبی ہوئی زہرابۂ غم میں
حذر اے چارہ گر اندیشہ ہائے فکر درماں سے
ترا جلوہ تو بے شک جلوہ بار عام تھا لیکن
شکایت کر رہا ہوں خود میں اپنی چشم حیراں سے
خدا حافظ ترا اے قلب ویراں اب خدا حافظ
کہ محرومی کو میری دشمنی ہے میرے ارماں سے
میں صدقے جلوہ آرا تیرے ذوق خود نمائی کے
مرتب کر دیا ہستی کو اجزائے پریشاں سے
میں وہ لذت شناس بے کسی ہوں گر مرا بس ہو
بدل لوں صبح عشرت کو میں اپنی شام ہجراں سے
ٹھہر کر دیکھتا جا بے کسیٔ خانہ ویرانی
ارے او جانے والے شام کو گور غریباں سے
ہر اک ذرہ ہماری دشت پیمائی کا شاہد ہے
سنو گے داستانیں تم ہر اک خار بیاباں سے
مجھے بربادیٔ ہستی کی کچھ پروا نہیں ثاقبؔ
میں پھر ترتیب دوں گا دل کے اجزائے پریشاں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.