کہاں نہ جانے چلا گیا انتظار کر کے
کہاں نہ جانے چلا گیا انتظار کر کے
یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے
جو ہم پہ ایسا نہ کار دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے
نہ جانے کس سمت جا بسی باد یاد پرور
ہمارے اطراف خوشبوؤں کا حصار کر کے
کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں
کہ تھک گئے ہم حساب لیل و نہار کر کے
تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں
ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے
یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا
عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے
ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں
ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے
تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے
یہ اب کھلا ہے کہ اس میں موتی بھی ڈھونڈتے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے
بقدر خواب طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا ادھار کر کے
- کتاب : Takrar-e-saa.at (Pg. 55)
- Author : Irfan Sattar
- مطبع : Dehleez Publication (2016)
- اشاعت : 2016
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.